سیرتِ نبوی ﷺ: ایک دل نشین داستان
قسط اول
عبدالرحمٰن بن علاءالدین ندوی
صحرا کی وسعتوں میں جہاں دھوپ کی تمازت نے زمین کو تپتے ہوئے سمندر کی مانند بنا دیا تھا، مکّہ کے پرشکوہ پہاڑوں اور پرفریب وادیوں کے درمیان، ایک نبی امی کی آمد کی پیشگوئی ہو چکی تھی۔ زمین، جو برسوں سے عدل و انصاف، محبت و الفت اور اخوت و بھائی چارگی سے بالکل خالی تھی اسے وہ عظیم نعمت ملنے والی تھی جو تمام انسانیت کو تاریکی و ظلمت کی گھٹا ٹوپ اندھیرں سے نکال کر نور وہدایت کی روشنی کی طرف لے جائے گی۔یہ داستان ہے آخری نبی الزماں محمد ﷺ کی،جن کا ذکر پہلے صحیفوں اور بالخصوص تورات انجیل اور زبور میں موجود تھا، جنہیں اللہ نے “رحمة للعالمین” بنا کر بھیجا، یہ مکّہ کی وہ رات تھی جب آسمان ستاروں سے جھلمل کر رہا تھا اور بظاہر سب کچھ ساکت و خاموش تھا، لیکن اس خاموشی کے پیچھے ایک عظیم انقلاب کے آثار پوشیدہ و مضمر تھے۔ کیوںکہ عبداللہ کے گھر میں ایک چاند سا بچہ پیدا ہونے والا تھا،جسے دنیا کچھ ہی پل بعد”محمد” کے نام سے جاننے والی تھی۔ اس بچے کی ولادت نے عرب کے معاشرتی ڈھانچے اور پرتوں کو ہلا کر رکھ دیا،جو برسہا برس سے خونریزی، قمار بازی، ظلم و زیادتی اور نا انصافی و بے ایمانی کا گہورہ بنا ہوا تھا آپﷺ کی تشریف آوری نے جزیرۃ العرب کو ان تمام گندگیوں اور آلائشوں سے پاک ہی نہیں بلکہ اسے تمام عالم کے لیے عدل و انصاف اور اخوت وبھائی چارگی کا مرکز و گہوارہ بنا دیا،کسے پتا تھا کہ عبداللہ کا لاڈلا اور آمنہ کا نور نظر مستقبل میں سارے لوگوں کے دلوں پر راج کرے گا، روز اول ہی سے محمد ﷺ کی معصومیت وبردباری، اخلاق و کردار اور صداقت و دیانت داری نے اہلِ مکّہ کو حیرت و استعجاب میں ڈال دیا تھا۔ جب دوسرے بچے کھیل کود اور بےجا کاموں میں مشغول ہوتے تو آپ ﷺ کا دل غور و فکر، مستقبل کی پلاننگ اور لوگوں کو بت پرستی سے نکال ایک خدا کی عبادت کی طرف لانے میں لگا رہتا۔ آپ ﷺ کی طبیعت میں سچائی اور دیانت داری کا ایسا رنگ چڑھا ہوا تھا کہ شباب تک آتے آتے، آپ کو “امین” اور “صادق” جیسے عظیم القابات سے نوازا گیا، پھر وہ دن بھی آیا جب غارِ حرا کے سناٹوں اور خاموشیوں میں ایک رات محمد ﷺ کے پاس جبرئیلؑ أمین دنیا کا سب سے بہترین پیغام لیکر آئے۔ جس پیغام نے مشرق و مغرب اور جنوب وشمال میں تہلکہ مچا دیا”اقرأ” کی صدا گویا پورے عالم کے لیے علم و ہدایت کی بنیاد بن گئی۔ اس ایک لفظ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ محمد ﷺ، جنہیں ابھی تک دنیا ایک عام انسان بلکہ امی کے طور پر جانتی تھی، اب وہ اللہ کے آخری نبی و رسول بن چکے تھے، پہلے تو خود نبی ﷺ کے دل میں ایک لرزہ طاری ہوا۔جس نے یہ ثابت کردیا کہ یہ ذمہ داری کتنی عظیم تھی۔اسی عظیم ذمہ داری کی نشان دہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے کچھ یوں فرمائی ہے (لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ۔ (الحشر:21)
ترجمہ:اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تم اسے جھکا ہوا، اللہ کے خوف سے پاش پاش دیکھتے اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں تاکہ وہ سوچیں۔لیکن اللہ کی مدد اور حضرت خدیجہؓ کی حوصلہ افزائی نے آپ کو مضبوط کر دیا۔ اب آپ ﷺ کو یہ پیغام چپّے چپّے تک پہنچانا تھا، اس کی نشرواشاعت پورے عالم میں کرنی تھی اور اس کی گونج ان نوجوانوں کے کانوں میں ڈالنا تھا جو آج سے پہلے شراب نوشی، قمار بازی، جوا اور رشوت جیسی گندی اور پلید چیزوں میں لت پت تھے،جو صدیوں سے گمراہی کے دلدلوں میں پھسے ہوئے تھے،جن پر ناامیدی و مایوسی کی دبیز چادر پڑی ہوئی تھی، انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ شاید ہی وہ ان چیزوں سے نکل پائیں گے لیکن جب ان کی نگاہ مکّہ کی گلیوں میں اس عظیم ہستی پر پڑی جو دن و رات ایک بڑا اور عظیم مشن کو لیے ہوئے گشت کرتا اور پھرتا رہتا تھا ، جس کے دل میں ہر انسان کی قدر و قیمت، عزت و احترام اور بھلائی کی تڑپ تھی جن کے سینہ کو نوع انسانی کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی وکامرانی کی مہم بے چین و بے قرار کر رہی تھی جب انہیں اس عظیم ہستی کے مقام ومرتبہ، قدر ومنزلت اور دنیا میں تشریف لانے کا مقصد کا پتہ چلا تو وہ آپ ﷺ کے قدموں میں گر پڑے اور یہی نہیں رفتہ رفتہ آپ سے ایسی محبت و الفت ہوگئی کہ آپ کی خاطر اپنے جان و مال حتی کہ اولادوں کو قربان کرنے کو سعادت مندی اور خوش بختی سمجھنے لگے جس کا اثر یہ ہوا کہ آنا فانا مکّہ کے فضا اور ماحول میں تبدیلی نظر آنے لگی،عرب کے سنگ دل قبائل جن کی آنکھوں میں تکبرو گھمنڈ اور طاقت و قوت کی چمک تھی، محمد ﷺ کی محبت اور حکمت کے سامنے پگھلنے لگے۔جاری۔