قرآن مجید اور ہماری ذمہ داریاں
عبدالرحمٰن علاءالدین ندوی
قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی آخری مقدس کتاب ہے،جس کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے، ارشاد باری تعالی ہے﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ (الحجر:٩)چنانچہ مرورِ زمانہ اور گردشِ دوراں کے بعد بھی قرآن مجید کی کسی ایک آیت، ایک لفظ، ایک حرف حتی کہ کسی حرکت(زبر،زیر،پیش)میں بھی تبدیلی اور تغیر رونما نہیں ہوا۔ لہذا قرآن مجید سے وابستگی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو نبھانے اور اس کا جو ہم پر حق ہے اسے کما حقہ ادا کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش تگ و دو اور جد وجہد کریں، چنانچہ قرآن مجید کے حوالے سے ہم پر چند ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں
سب سے پہلی ذمہ داری:ہمارا قرآن مجید کے منزل من اللہ اور اس کے آخری کتاب ہونے پر مکمل ایمان ہونا چاہیے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے﴿وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَءَامَنُواْ بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٖ وَهُوَ ٱلۡحَقُّ مِن رَّبِّهِمۡ كَفَّرَ عَنۡهُمۡ سَيِّـَٔاتِهِمۡ وَأَصۡلَحَ بَالَهُمۡ﴾(محمد:٢) ترجمہ:جو شخص قرآن مجید پر ایمان رکھتا ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں اور اس کے معاملات کوسنوار دیتے ہیں۔
دوسری ذمہ داری:ہر شخص کو چاہے کہ وہ بلا ناغہ اس کی تلاوت کرے خواہ چند آیت یا رکوع ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ﴾(الإسراء:٨٢) ترجمہ: اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے سراسر شفا اور رحمت ہے) یہاں پر”شفاء” سے مراد روحانی بدنی دونوں امراض ہیں، “روحانی امراض” جیسے کفرو شرک، حب دنیا، تکبر، بغض و عناد، بخل، خود پسندی ،جہالت و بدعت، آراء فاسدہ اور گھٹیا مقاصد وغیرہ جو انسان کے دل کو تباہ و برباد کردیتے ہیں ،رہی رحمت، تو قرآن کے اندر ایسے اسباب اور وسائل ذکر کئے گئے ہیں جن کو اختیار کرنے کی قرآن ترغیب دیتا ہے جب بندہ ان کو اختیار کرلیتا ہے تو بے پایاں رحمت، ابدی سعادت، دنیاوی اور اخروی ثواب سے بہرہ ور ہوتا ہے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رمضان کے مبارک مہینے میں قرآن کی تلاوت تو کرتی ہے، لیکن باقی دوسرے ایام میں دنیوی اُمور میں کچھ ایسے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں کہ تلاوت کا وقت ہی نہیں ہوتا،ہمیں بحیثیتِ مسلمان روزانہ کچھ حصہ ضرور اس کی تلاوت کے لئے نکالنا چاہیے۔
تیسری ذمہ داری:اس کے معانی و مطالب اور مفاہیم کو سمجھا جائے۔باری تعالیٰ فرماتا ہے(كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۲۹ (ص:۲۹ ترجمہ:(یہ)کتاب جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں‘‘۔ اس آیت سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ قرآن حکیم کی آیتوں میں تدبر و تفکراس کے نزول کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ جب ہم اس طرح تلاوت کریں گے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ حق وباطل کے درمیان تمیز کرنے، حلال وحرام کے مسائل کو سمجھنے اور دوسروں کو بتانے میں آسانی ہوگی،اور دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کا راز جو اس میں مضمر ہے اس سے بھی آگاہ ہوں گے۔
چوتھی ذمہ داری:جو قوانین و ضوابط اس میں بیان کیے گئے ہیں ان کو عملی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کرنا کیونکہ جو لوگ قرآن مجید کے مفاہیم اور مطالب کو سمجھنے کے باوجود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے ایسے لوگ درحقیقت اپنے علم کا حق ادا نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ نے یہود کے بے عمل علماء کو گدھے کی مانند قرار دیا کہ جن پر کتابوں کابوجھ لاد دیا گیا ہے)مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَاراً ترجمہ:ان کی مثال جن پر توریت رکھی گئی تھی پھر انہوں نے اس کی حکم برداری نہ کی گدھے کی مثال ہے جو پیٹھ پر کتابیں اٹھائے (جمعہ:٥)
پانچوی ذمہ داری:قرآنی تعلیمات کو عام کرنا بھی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا(بلِّغوا عنِّي ولو آيةً)(صحيح بخاري:3461) ترجمہ:”میرا پیغام لوگوں کو پہنچاؤ! اگرچہ ایک ہی آیت ہو” چنانچہ اس کے لئے مکمل عالم ہونا شرط نہیں، ہاں اس بات کا بالکل خیال رہے کہ درست اور صحیح معلومات ہوں معتبر اور اچھے عالموں سے سنا گیا ہو پھر اسے دوسرے لوگوں تک پہنچانے میں کوئی مضائقہ نہیں.
اللہ تعالٰی ہمیں علم و عمل کی توفیق عطا فرمائے