سیرتِ پاک: محبت کی داستان
بقلم:عبدالرحمن ندوی
لیکن یاد رکھیں جب حق وباطل کی جنگ شروع ہوتی ہے، اس وقت اصلی اور نقلی کے مابین موازنہ ہوتا ہے، تو پھر کھوٹا اور کھرا کا پتہ چلتا ہے، اور اسی دوران اہل حق کو آزمائشوں، امتحانات اور ابتلاءات کا شدت کے ساتھ سامنا کرنا پڑتاہے، کیونکہ سونا اسی وقت جوہری کی دوکان کی زینت بنتا ہے جب اسے بھٹی میں تپایا اور گرمایا جاتاہے، چنانچہ قریش کو احساس ہوا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی کو اس کام سے باز نہیں رکھا گیا، تو پھر وہ دن دور نہیں کہ پورے مکہ اور اطراف و اکناف ہی نہیں بلکہ پورے عالم میں اس نئے دین کا چرچا اور بول بالا ہونے لگے گا، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہونے لگیں گے، پھر اس کا اثر یہ ہوگا کہ ہمارے آباؤاجداد کا دین دھیرے دھیرے اس کرۂ ارض سے مٹنے لگے گا، لہٰذا ہمیں اس کے لیے کوئی لائحہ عمل و ضابطہ تیار کرنا ہوگا، جس کے ذریعہ ہم اس دین کے پھیلاؤ کی شدت کو شروع میں ہی روک اور دبا سکیں، لیکن ان کے پاس اس کو روکنے کے لیے کوئی خاص لائحہ عمل نہیں تھا، سواۓ ظلم و ستم ڈھانے، سب و وشتم کرنے اور آپ کو اور آپ کے اصحاب کو سخت سے سخت سزا دینے کے، لیکن ان کو کیا پتہ کہ جو ایک مرتبہ اس نعمت سے سرفراز ہوتا ہے، اس کی حقیقت اور منفعت کو سمجھتا ہے، اور اس کے اندر چھپی ہوئی دنیا و آخرت کی کامیابی وکامرانی کا راز ہائے سربستہ سے بہرہ ور ہوتا ہے، تو پھر ان کو نہ ہی سمندروں کی تیز و تند لہریں، دریاؤں کی طوفانی موجیں،ہواؤں کی سخت جھوکیں اور نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت وقوت روک سکتی ہے وہ ہر چیز سے نبرد آزما ہونے، ٹکرا جانے اور سامنا کرنے کا حوصلہ اور جذبہ رکھتا ہے، وہ نہ ہی اولاد کی محبت، بیوی کا پیار، خاندانی شان وشوکت، عہدہ و منصب کی طمع اور دنیا کے مال و متاع کے لالچ کی پرواہ کرتا ہے، گویا ان کے ذہن و دماغ میں صرف اور صرف ایک ہی چیز گردش کرتی ہے کہ اس دین کے سامنے یہ ساری چیزیں ہیچ،معمولی اور فنا ہونے والی ہے، تو کیوں نہ اس چیز کی طرف دوڑیں، بھاگیں اور لپکیں جو نافع ہی نہیں نافع تر ہو معمولی نہیں غیر معمولی ہو اور باقی نہیں ہمیشہ ہمیش باقی رہنے والی ہو،چنانچہ یہ وہ گھڑی تھی کہ جب ایک طرف اسلام اپنے ابتدائی ایام، شروعاتی دور اور نئے زمانہ کے آغاز میں تھا تو دوسری طرف کفر کا زور اپنے اختتامی دور، آخری ایام، ختم اور مٹ جانے کے کگار پر تھا،ایک طرف اہل مکہ کو اپنے آباؤاجداد کے دین کا چراغ گل ہونے اور اسکی روشنی ٹمٹمانے کا احساس بے خود کر رہا تھا، تو دوسری طرف اسلام کی کرن اور اس کی شعاعوں کو اپنے پورے آب تاب کے ساتھ ظہور ہونا بے چین و بے قرار کر رہا تھا، ان کے ذہن و دماغ میں ایک ہی چیز گردش کر رہی تھی کہ وہ دین جو صدیوں پرانا ہو اچانک کیسے مٹ سکتاہے کیا ہمیں اس کی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہئیے لیکن وہ اس دین کے لیے آخر کیا ہی کر سکتے تھے، جس میں خدا ایک نہیں سیکڑوں ہوں جن کی صفات جھوٹا، کمزور، بے بس و بے سہارا اور لاچار ہوں، جو اس لائق نہیں کہ اگر مکھی ان پر بیٹھ جاۓ تو اسے وہ اڑا سکیں، دھول اس پر پڑ جاۓ تو اسے صاف کرسکیں، اور مکڑی اگر اپنا آشیانہ ان پر بنانا چاہے تو اسے وہ روک سکیں ،تو بھلا وہ کیسے اس ایک خدا وحدہ لاشریک لہ کا مقابلہ کرسکتا ہے جس کی صفات لا تعداد ہوں، جس کے اچھے اچھے نام ہوں، جس کی فوجیں آسمان و زمین میں پھیلے ہوۓ ہوں، جس کی حکومت آسمان کی بلندی سے لیکر زمیں کی تہوں تک میں موجود ہوں