سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دل نشین داستان
قسط دوم
بقلم:عبدالرحمٰن ندوی
چنانچہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے جب پہلی بار دعوتِ حق کا کھل کر اعلان کیا تو مکّہ کی فضاؤں میں جیسے ایک طوفان سا برپا ہوگیا ہو، وہاں کے پہاڑوں اور وادیوں میں یوں گونجا کہ سب کے سب لرزاں و ترساں ہوگئے،روم وفارس کے محلات تھرا اٹھے گویا زلزلہ کی چپیٹ اور زد میں آگیا ہو، غیر اللہ کے مبلغین و پرستاروں، راہبوں اور نجومیوں نے جب اس چیز کا چرچا اور تذکرہ سنا تو وہ انگشت بدنداں ہوگئے گویا ان پر کوئی صاعقہ آ ٹوٹ پڑا ہو، “قریش”جو آپ ﷺ کو بچپن سے عزت واحترام اور قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اب آپ کے لاۓ ہوۓ دین کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کو اپنے قدیم طرزِ زندگی،اپنے آباؤ واجداد کے پرانے دین و مذہب اور عقائد و نظریات کے لیے خطرہ سمجھنے لگے،انہیں یہ احساس ستانے لگی کہ جو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آۓ ہیں اگر اس کی تبلیغ و اشاعت مکہ اور اس کے اطراف و اکناف میں کر دی گئی تو ہمارے آباؤاجداد کا دین مٹ جاۓ گا اور ہمیشہ ہمیش کے لیے ناپید ہوجاۓ گا،انہیں یہ خدشہ لاحق ہونے لگا کہ کہیں کعبہ میں جو بُت رکھے ہوۓ ہیں اب صبح وشام اس میں توحید کا نغمہ گونجنے نہ لگے،ادھر محمد ﷺ ہمہ وقت اس عظیم منصوبہ اور پروگرام کی فکر میں لگے رہتے جسے انجام دینے کے لیے اللہ رب العزت نے انھیں اس روۓ زمین میں بھیجا تھا،چنانچہ آپ خاص موقع اور فرصت کی تلاش میں رہتے تاکہ اپنے قریبی لوگوں، دوستوں، گھر والوں اور پھر آہستہ آہستہ پورے مکّہ کی عوام کو اللہ کے پیغام سے روشناس کرایا جاسکے۔ایک طرف دشمن کا خوف تو دوسری طرف اللہ کے دین کی تبلیغ کی فکر آپ کو بے چین و بے قرار کی ہوئی تھی،اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے بچپن کے دوست حضرت ابوبکرصدیق سے اس عظیم مشن کی شروعات کی جاۓ،جب آپ نے حضرت ابوبکرصدیق سے اس چیز کا تذکرہ کیا تو ان کو ایسا لگا کہ گویا وہ اسی انتظار اور گھات میں بیٹھے ہوۓ تھے کہ کوئی انہیں اصل دین اور حقیقی خدا کی عبادت و بندگی کی طرف رہنمائی کرے، پھر دیر کس بات کی جوں ہی حضرت ابوبکرصدیق نے آپ کے اس مشن اور آپ کی دنیا میں تشریف آوری کے مقصد کو سمجھا بغیر چوں چراں کہ بول اٹھے لیبک و سعدیک یا
مردوں میں سب سے سے پہلے ایمان لانے والے بھی بن گئے،چنانچہ حضرت ابوبکرصدیق ایمان جیسی قیمتی دولت سے سرفراز ہوۓ تو انہوں نے اس مشن کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا اور مقصد حیات بنا لیا۔ان کے ایمان لانے سے آپ کو مزید تقویت اور حوصلہ ملا، پھر آپ کی ہمسفر اہلیہ محترمہ حضرت خدیجہؓ، جن کے ساتھ شب و روز آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا جو پہلے دن سے آپ کے ساتھ تھیں انہوں نے عورتوں میں سب سے پہلے اسلام جیسی عظیم نعمت سے سرفراز ہوکر قیامت تک کے لیے یہ تمغہ اپنے نام کرلیا، جب اس چیز کی بھنک آپ کے پیارے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ کو ہوئی تو انہوں نے سوچا کیوں نہ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوۓ اسلام کے اولین سپاہیوں میں شامل ہوجاؤں، اور بچوں میں سب سے پہلے اس دولت سے مالا مال ہونے والوں کا سر فہرست بن جاؤں،یوں ایک ایک کرکے لوگ دھیرے دھیرے اسلام میں داخل ہونے لگے۔